Urdu Speech on Islam wants peace not terrorism اسلام دہشت گردی نہیں، امن چاہتا ہے
Urdu Speech on Islam wants peace not terrorism اسلام دہشت گردی نہیں، امن چاہتا ہے

اردو تقریر: اسلام دہشت گردی نہیں، امن چاہتا ہے : Urdu Speech on Islam Wants Peace, Not Terrorism

Posted on

اردو تقریر: اسلام دہشت گردی نہیں، امن چاہتا ہے : Urdu Speech on Islam Wants Peace, Not Terrorism

صدر گرامی قدر اور حاضرین والا تبار! آج مجھے اردونامہ کتاب گھر کی جانب سے جس فکر انگیز موضوع پر اظہار خیال کرتا ہے وہ ہے اسلام دہشت گردی نہیں، امن چاہتا ہے والا قدر! آج باطل قوتیں ذرائع ابلاغ کا سہارا لے کر اسلام کو دہشت گردی کا علمبردار قرار دینے پر تلی ہوئی ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔

Urdu Speech on Islam wants peace not terrorism اسلام دہشت گردی نہیں، امن چاہتا ہے
Urdu Speech on Islam wants peace not terrorism اسلام دہشت گردی نہیں، امن چاہتا ہے

جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے اسلام دشمن عناصر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے ہیں اور ان سب کا ایک ہی مقصد ہے کہ اسلام کو دہشت گردی کا پیغام قرار دے کر مسلمانوں پر ضرب کاری لگائی جائے۔ آج عالمی ضمیر ہمیں جھنجھوڑ کر صورتحال کی نزاکت کو سمجھنے کا پیغام دے رہا ہے کہ تو دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے ہونے والا ہے دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی بھلا عہد کہن کی داستانوں میں چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں۔

عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں جناب والا! اسلام دہشت گردی کا علمبردار نہیں بلکہ امن و سلامتی کا مذ ہے۔ اسلام کے لفظ ہی سے امن وسلامتی کی خوشبو پھوٹ رہی ہے۔ قرآن حکیم ہو یا احادیث نبوی، حضور ملی الہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہو یا صحابہ کرام اور مسلم جرنیلوں کا طرز عمل ہمیں کہیں بھی دہشت گردی کی پر چھائیاں نظر نہیں آتیں؛ بلکہ چودہ صدیوں کے افق پر دین اسلام امن عالم کی روشنی بکھیر رہا ہے۔

صدر محترم! اسلام کسی سے زندہ رہنے کا حق نہیں چھینتا بلکہ اپنے ماننے والوں کو باوقار زندگی کا پیغام دیتا ہے۔ اسلام جارحیت اور بے سبب قتل و غارت کا قائل نہیں بلکہ یہ تو اپنی حفاظت کے نام پر ہتھیار اٹھانے کا درس دیتا ہے۔ باوقار زندگی کیلئے عملی جدو جہد کرنا اور اپنے حقوق کیلئے میدان عمل میں اتر جانا کسی صورت بھی دہشت گردی نہیں، بلکہ یہ تو تہذیب عالم کے اصولوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے۔

دکھ تو یہ ہے کہ دہشت گردی کی تشریح کا فریضہ ان غاصب قوتوں نے سنبھال لیا ہے جو چنگیز و ہلا کو کی جانشین ہیں۔ جو فرعونی خدائی کے نام پر امن عالم سے کھیل رہی ہیں۔ مظلوم اقوام کو خاک و خون کے سمندر میں غرق کر کے وہ ان کی اجتماعی قبروں پر دہشت گردی کے کتبے لگا رہی ہیں۔

خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے محترم حاضرین! تاریخ اسلام شاہد ہے کہ ہجرت مدینہ سے قبل مسلمان سینکڑوں کی تعداد میں تھے مگر حضور ما ای کم نے مکہ میں ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں دی۔ مدینہ طیبہ میں آکر بھی آپ نے امن وسلامتی کی فضاء کو برقرار رکھا۔

جب کفار مکہ نے مسلمانوں پر جنگیں مسلط کر دیں تو پھر مسلمانوں نے میدان جنگ میں شیران خدا کا روپ اختیار کر کے کفار کے عزائم کو خاک میں ملا دیا اور ثابت کر دیا کہ جو عزت کے ساتھ مرنا نہیں جانتا اسے غیرت کے ساتھ جینا بھی نہیں آتا۔

تاریخ اسلام شاہد ہے کہ اسلامی تعلیمات میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اسلام تو دوسروں کے جان و مال کی حفاظت کا درس دیتا ہے۔ مسلم حکومتیں اپنی حدود میں بسنے والے غیر مسلموں کو وہ حقوق عطا کرتی تھیں جو انہیں اپنے ملک میں بھی حاصل نہیں تھے۔ جنگوں میں فریقین اعتدال کا رشتہ کھو بیٹھتے ہیں ، مگر ہمارے رسول کریم جب کوئی لشکر روانہ فرماتے تو اسکے سالار اعلیٰ کو سختی سے ہدایت فرماتے۔

” جہاں پہنچو وہاں پہلے اسلام کا پیغام دینا۔ نہ مانیں تو جزیہ ادا کرنے پرآمادہ کرنا۔ اگر جنگ ناگزیر ہو جائے تو خبر دار بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کرنا ۔ جو ہتھیار ڈالیں ان پر ہتھیار نہ اٹھانا۔ فصلیں اور باغات تباہ نہ کرنا تمہاری جنگ اسلام کیلئے ہے لہو کے سمندر بہانے کیلئے نہیں“۔
جناب والا! تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ ارشاد نبوی کو شمع راہ بنائے رکھا۔ مسلم فاتحین جہاں بھی پہنچے وہاں اخلاق اور حسن کردار کی شمعیں روشن کیں۔ امن و سلامتی کے گلشن کھلا دیئے۔ انسانی حقوق کو سربلندی عطا کی اور ثابت کر دیا کہ

ہم کہ دہشت گرد نہیں ہیں امن کے ہم رکھوالے ہیں
صلح و محبت مقصد اپنا پیار کے ہم متوالے ہیں
ہم تو ہر اک حال میں اس اسلام کو چاہنے والے ہیں
جس کی بدولت امن و راحت کے ہر سمت اجالے ہیں

صدر محترم ! ہم اگر چه امن و سلامتی اور صلح و محبت کے علمبردار ہیں مگر امن و سلامتی کا یہ مطلب تو نہیں کہ اگر دشمن ہمارے گھر میں گھس آئے تو اپنا گھر ہی اسے سونپ دیں۔ پاکستان ہمارے لئے سائبان رحمت ہے رحمت خداوندی ہے۔ ہر مسلم حکومت کو اپنا وطن اسی طرح عزیز ہے جس طرح امریکہ برطانیہ اور اقوام یورپ کو اپنے وطن عزیز ہیں۔ اسلائم تو بین الاسلامی اخوت کا پیغام دیتا ہے۔ یہ بین الاسلامی اخوت دو قومی نظریہ کا اعزاز ہے۔

اگر محمد بن قاسم عرب سے چل کر ایک مسلمان بہن کی امداد کیلئے سندھ آ سکتا ہے تو ہم کشمیری مسلمانوں کی امداد کیوں نہیں کر سکتے ۔ کشمیر ہندوستان کی جاگیر نہیں، پاکستان کی شہ رگ ہے اور ہندوستان اقوام عالم سے وعدوں کی رو سے وہاں رائے شماری کا پابند ہے۔ کشمیریوں کے حقوق کی آواز اٹھانا دہشت گردی نہیں بلکہ دہشت گرد تو ہندوستان ہے جو کشمیریوں کی لاشوں پر حکومت کرنے کا دعویدار ہے۔ والا قدر! آج کی واحد سپر پاور امریکہ نے دہشت گردی کے دوہرے ارکھے ہیں۔ افغانستان کو خون میں نہلا دیا گیا۔ اس قتل عام کو قیام امن سے تعبیر کیا گیا۔

عراق کی تباہی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی گئی۔ فلسطین کے مسلمان اپنی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے تھک گئے ہیں مگر شیطان اصغر اسرائیل اور اس کے سر پرست امریکہ کو روکنے والا کوئی نہیں۔ بوسینیا اور چیچنیا میں امن کے نام پر قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ امریکہ برطانیہ روس اور یورپی اقوام اور ان کے استبادی فرزندوں ، ہندوستان اور اسرائیل کا کیا دھرا ہے جبکہ کسی بھی مسلم ملک نے دوسرے ملک پر موت مسلط نہیں کی۔

جناب والا! اسلام سے بڑھ کر اقوام عالم کا امن کسے عزیز ہو گا۔ حضور نبی کریم کا یہ ارشاد گرامی تاریخ کے اوراق پر جگمگا رہا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے؟۔ مسلمانوں نے صدیوں تک اقوام عالم پر حکومت کی ہے مگر دہشت گردی کا بہانہ بنا کر کمزور اقوام کا قتل عام نہیں کیا۔

آج سات سمند ر پار بسنے والے امریکہ کو کمزور و بے بس اور اپنی ذات کا تماشا دیکھنے والے مسلمان ہی دہشت گرد نظر آتے ہیں؟ کیا جنگ عظیم اول اور دوم کے نام پر کروڑوں انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے والے مسلمان تھے؟ کیا ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم مسلمانوں نے گرائے تھے۔ یہ امریکہ اور یورپی اقوام کے سنہری کارنامے ہیں جن کے تذکرے سے ہی انسانیت شرم سے منہ چھپا لیتی ہے۔

محترم حاضرین! آج اسلام کے نام لیواؤں کو ایک ہو جانا چاہیے۔ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے۔ اس کا دہشت گردی سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ خدارا اسلام کے مرکز امن و سلامتی پر جمع ہو جائیے۔ جرم ضعیفی سے خود کو بچائے۔ ور نہ وقت اقبال کے لفظوں میں اپنا فیصلہ سنا چکا ہے۔

تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے