حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کیا ہے؟
پاکستان اپنی پہلی سلور جوبلی منانے سے بھی پہلے صرف چوبیس سال بعد گزرنے کے بعد اپنے مشرقی بازو سے ہاتھ دھو بیٹھا آج اس واقعہ کو کئی دہائیاں بیت چکی ہیں لیکن اس سانحہ کے پس پردہ حقائق سے پردہ نہیں اٹھایا جا سکا اور عوام کو ابھی تک پتہ نہیں چلا کہ یہ سانحہ کیوں کر رونما ہوا اور اس کی ذمہ داری کس پر عائد کی جا سکتی ہے۔
اس وقت کی سیاسی حکومت پر جس نے مشرقی پاکستان کے بارے میں بے اعتنائی کا رویہ اختیار کیا یا اس فوجی حکومت پر جس نے سازشی عناصر کے سدباب کے لئے بروقت اور مناسب اقدامات اختیار نہ کیئے اور آرمی ایکشن اس وقت شروع کیا گیا جب صورتحال انتہائی خطرناک موڑ پر پہنچ چکی تھی۔
حالات کو اس نہج تک پہنچانے کے لئے ملک دشمن قوتوں نے مل کر بنگالی عوام کے ذہنوں میں نفرت کا بیج بویا اور انہیں بغاوت پر آمادہ کیا، کسی نے حقوق کی جنگ لڑی تو کسی نے مفادات کی ، کسی نے آزادی کا نعرہ لگایا تو کوئی غداری کا مرتکب ٹھہرا کوئی منظر پر رہا تو کئی پس منظر رہ کر اپنا کردار نبھاتے رہے لیکن حمود الرحمن کمیشن رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد ہم ان حقائق کو کچھ حد تک سمجھنے کے قابل ہو گئے ہیں۔
کمیشن نے ان حقائق سے پردہ اٹھایا تھا جن کی بناء پر مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک شروع ہوئی اور مشرقی پاکستان میں وہ ہولناک واقعات رونما ہوئے جن کو پڑھ کر انسانی ذہن ششدر رہ جاتا ہے جو علمبرداران اسلام بلکہ اسلام کے نام پر حاصل کیئے گئے ملک کی عوام اور مسلح افواج کے ہاتھوں رونما ہوئے۔ حمود الرحمن رپورٹ کا ایک ایک صفحہ چشم کشا اور معلومات افزا ہے۔
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کے لئے اپنے انٹریوو بیان میں جنرل امیر عبداللہ نیازی نے کہا کہ میں نے جنرل محمد یحیٰی خان سے کہا تھا کہ مسئلے کا سیاسی حل نکالئے لیکن جب انہوں نے اس تجویز کو رد کر دیا تومیں نے ان سے دو ڈویژن کور فوج بھیجنے کا مطالبہ کیا لیکن شاید پاکستانی اعلٰی حکام بھی مشرقی پاکستان نے چھٹکارا ہی چاہتے تھے۔
13 دسمبر 1971 کو میں نے آخری گولی اور آخری آدمی کا حکم دیا جو فوج کے لئے موت کا پیغام ہوتا ہے مگر تمام ساتھیوں نے خوشدلی سے اس پر لبیک کہا لیکن اس موقع پر یحیٰی خان نے کہا کہ ہتھیار ڈال دیں کیونکہ مغربی پاکستان بھی خطرے سے دوچار ہے اگر مغربی پاکستان ہی نہیں رہے گا تو مشرقی پاکستان کا کیا فائدہ۔لہذا فوج کے حاکم اعلیٰ کا حکم ماننا میرا فرض تھا انہوں نے کہا کہ پردہ نشینوں کو معلوم ہے کہ اگر اس بات کی انکوائری ہوئی تو بڑے بڑے پردہ نشینوں کے نام سامنے آئیں گے۔
اگر حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں اس بات کا ذکر کر دیا جاتا تو بھٹو کو بھی حکومت نہ ملتی۔ جنرل نیازی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان واقعات کی انکوائری کروائی جائے پہلا کہ الیکشن مکمل ہونے کے بعد جنرل یحیٰی نے اقتدار عوامی لیگ کے حوالے کیوں نہ کیا، دوسرا یہ کہ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے خلاف فوجی ایکشن کا فیصلہ کیوں اور کن حالات کے تحت کیا گیا یعقوب خان، ٹکاخان اور میرا اس میں کیا کردار تھا۔ تیسرا یہ کہ مغربی پاکستان نے مشرقی پاکستان کا دفاع کیوں نہ کیا جبکہ مغربی پاکستان میں فوج اور اعلیٰ قیادت کے ساتھ پوری مشینری موجود تھی۔
سنہ 2000 میں اس رپورٹ کے کچھ حصے ہندوستانی اور پاکستانی اخبارات کو لیک کر دیئے گئے تھے۔ پھر سنہ 2011 میں باقاعدہ اس رپورٹ کو حکومت پاکستان کی طرف سے پبلک کر دیا گیا لیکن تب بھی اس کا اہم سیاسی و فوجی امور والا حصہ اہم قومی راز کہہ کر شائع نہیں کیا گیا اور اسے ٹاپ سیکریٹ کا نام دے کر دبا دیا گیا۔
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کے ممبران
سپریم کورٹ آف پاکستان
چیف جسٹس حمودالرحمن ۔۔۔۔ چئیرمین
سئنیر جسٹس انوار الحق ۔۔۔۔۔ وائس چئیرمین
سئنیر جسٹس طفیل الرحمن چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ
بلوچستان ہائی کورٹ سے دو اضافی ممبران
لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) الطاف قادر بطور فوجی مشیر
زیرِ نظر کتابیں دراصل اسی حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کی کاپی ہے جسے اردونامہ فورم کے قارئین کے لئے اس سے پہلے اقتسابات کی شکل میں اس لنک پر پیش کیا گیا تھا لیکن اس بار اسے کتابی شکل میں اردونامہ کتاب گھر کی زینت بنایا گیا ہے۔
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے نیچے موجود لنکس کر کلک کیجئے۔
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ حصہ اول