Chalte ho to cheen ko chalye - چلتے ہو تو چین کو چلئے
Chalte ho to cheen ko chalye - چلتے ہو تو چین کو چلئے

چلتے ہو تو چین کو چلئے سفرنامہ از ابن انشاء

Posted on

چلتے ہو تو چین کو چلئے سفرنامہ از ابن انشاء

مصنف کا تعارف

زیرِ نظر سفرنامہ چلتے ہو تو چین کو چلئے مشہور مزاح نگار ابن انشاء کا چین کا سفرنامہ ہے جس میں انہوں نے اپنے چین کے سفر اور وہاں کے حالات کو نہایت بہترین انداز میں اپنے قارئین تک پہنچایا ہے۔

Chalte ho to cheen ko chalye - چلتے ہو تو چین کو چلئے
Chalte ho to cheen ko chalye – چلتے ہو تو چین کو چلئے

ابنِ انشاء 15 جون 1927 کو بھارت کے صوبہ پنجاب ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ ابنِ انشاء کا اصل نام شیر محمد خان تھا۔ ۔ جہاں ابنِ انشاء اُردو ادب کے مشہور مزاح نگار تھے ساتھ ہی ساتھ مزاح نگار ی کے ساتھ انہوں نے شاعری، سفرنامہ نگاری اور کالم نگار ی میں بھی اپنے قلم کا لوہا منوایا۔

ابنِ انشاء نے اقوامِ متحدہ میں بھی کام کیا جس کے باعث انھیں بہت سے ممالک میں جانے کا موقع ملا اور اس سفر سے متاثر ہو کر انھوں نے سفر نامے لکھے۔ ابنِ انشاء نے 11 سال کی عمر میں شاعری شروع کی، 1942 میں آپکی پہلی نظم ساحل پر رسالہ شاہکار میں چھپی۔ مزاح نگاری میں انہوں نے بہت سے کالم اور مضامین لکھے جو بعد میں کتابوں کی شکل میں چھپے۔ ابنِ انشاء کی شاعری میں الف لیلوی اور میر کا رنگ ہے۔

مصنف کی مشہور تصانیف

ابنِ انشاء کی تصانیف میں چلتے ہو تو چین کو چلیے، آوارہ گرد کی ڈ ائری سے، دنیا گول ہے، ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں ، آپ سے کیا پردہ، اردو کی آخری کتاب، اس بستی کے اک کوچے میں، چاند نگر، دلِ وحشی، اور چند چینی نظموں کا ترجمہ شامل ہے. ابنِ انشاء خود کو وحشی اور دیوانہ کہتے تھے مگر معاشرتی مسائل کو طنزیہ انداز میں پیش کر کے لوگوں کو ہنسانے کا فن خوب جانتے تھے۔

اس سفرنامہ میں وہ چین کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں کے لوگ "پانی ابال کر پیتے ہیں، موبل آئل وہاں گاڑیوں میں ڈالا جاتا ہے۔ اصلی یابناسپتی گھی کہہ کر فروخت نہیں کیا جاتا۔ بھٹے کی اینٹیں بھی مکان بنانے کے کام آتی ہیں۔ ہلدی اور مرچ میں ملا کر ان سے تعمیر معدہ کا کام نہیں لیا جاتا۔

وہاں دودھ بھی گائیوں اور بھینسوں کا ہوتا ہے۔۔ تالابوں یا کمیٹی کے نلکوں سے حاصل نہیں کیا جاتا۔۔ ۔ وہاں آزادی کی سخت کمی ہے ہمارے ایک ساتھی جو اپنے ساتھ پاندان لے کر گئے تھے بار بار فرماتے تھے کہ یہ کیسا ملک ہے، جہاں سڑک پر بھی تھوک نہیں سکتے۔

ایک صاحب شاکی تھے کہ یہاں خریداری کا لطف نہیں، دکاندار بھاؤ تاؤ نہیں کرتے۔ ہوٹل کے بیروں کو بخششیں لینے اور مسافروں کو بخششیں دینے کی آزادی نہیں۔ بسوں اور کاروں کے اختیارات بھی محدود ہیں۔ آپ اپنی بس کو فٹ پاتھ پر نہیں چڑھا سکتے نہ کسی مسافر کے اوپر سے گزار سکتے ہیں۔ "

چلتے ہو چین کو چلئے ڈاونلوڈ کیجئے

غرض ابن انشاٗ کا سفرنامہ چلتے ہو تو چلئے اردو ادب کا ایک نہایت اہم حصہ ہے جس میں نہ صرف قاری سارے چین کی سیر کرتا ہے بلکہ ساتھ میں طنزومزاح کا لطف بھی لیتا ہے۔ اردونامہ فورم اپنے قارئین کے لئے یہ سفرنامہ یہاں اردونامہ کتاب گھر میں لے آیا ہے تاکہ تمام احباب لطف اندوز ہو سکیں۔

چلتے ہو تو چین کو چلئے ڈاونلوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے