برصغیر میں شیر، چیتے اور تیندوے کے شکار کی کہانیاں
برصغیر کے جنگلات خصوصا انڈیا، نیپال، بھوٹان اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات جنگلات کا شمار ایسے جنگلات میں ہوتا ہے جو جنگلی جانوروں سے بھرے ہوتے تھے، مگر افسوس جنگلی حیات کے بے تحاشہ شکار نے تقریبا تمام جنگلی حیات کو نہ صرف شدید ترین خطرات سے دو چار کر دیا بلکہ ان میںسے اکثر کا نام و نشان ہی مٹ چکا ہے۔ خاص طور پر انڈ و پاکستان میں پہلے نوابوں اور بعد میں انگریزوں نے بے تحاشہ شکار کیا اور بہت سارے نواب اور انگریز ایسے تھے جنہوں نے سینکڑوں کی تعداد میں صرف شیر اور چیتے شکار کیئے۔
ویسے تو میں جنگلی حیات کے اس طرح کے شکار کا بہت بڑا مخالف ہوںمگر افسوس میرے مخالفت کرنے یا نہ کرنے کا اب کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اب جو ناقابلِ تلافی نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا۔
البتہ بعض اوقات حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ ان جانوروںکا شکار کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے ان میں سے سب سے بڑی وجہ ان جانوروںسے لاحق انسانی جان کو خطرات ہیں، بعض اوقات کچھ وجوہات کی بناء پر یہ جانور ایسی عادات اپنا لیتے ہیں کہ انسانوں کے لئے خطرناک بن جاتے ہیں جن میں سب سے بڑی بات ان جانوروں کا مویشی خور یا پھر آدم خور بن جانا ہوتا ہے۔ ان حالات میں ان جانوروں کو مار دینا ہی بہتر سمجھا جاتا تھا کیونکہ ایک بار ان جانوروں کو ایسی عادت پڑ جائے تو پھر ختم نہیںہوتی۔
برصغیر کے جنگلات ایسے بے شمار واقعات سے بھرے پڑے ہیں اور ان واقعات پر مشتمل بہت ساری کتب بھی شائع ہو چکی ہیں، ایسے شکاری جنہوں نے برصغیر میں آدم خور شیروں کے شکار میںشہرت حاصل کی ان میں جم کاربٹ، کنتھ اینڈرسن، قمر نقوی جیسے نام شامل ہیں ان شکاریوں نے اپنی شکار کی کہانیوں پر مشتمل یاداشتیں شائع کروائیں جن کو بے تحاشہ شہرت حاصل ہوئی۔
انہیں داستانوں میں جم کاربٹ کی مشہور زمانہ کتاب کماؤں کے آدم خور بھی شامل ہے جس میں اس نے ایسے بے شمار واقعات لکھے ہیں جو اسے دورانِ شکار پیش آئے۔ ان کہانیوں کو اردونامہ کے قارئین کے گوش گزار کرنے کا مقصد صرف کہانیاں سنانا ہرگز نہیں بلکہ لکھاریوںنے نہ صرف اپنے شکار کی روداد لکھی ہے بلکہ انہوں نے ساتھ ساتھ جنگلی حیات کے بارے میں، ان کے رہن سہن اور عادات و اطور کے بارے میں اتنا تفصیلی طور پر لکھا ہے کہ پڑھنے والا ان جانوروںکے بارے میں بہت اچھی طرح آگاہ ہو جاتا ہے۔
سب سے دلچسپ کہانی جم کاربٹ کی چمپاوت کی آدم خور شیرنی کے بارے میں ہے۔ یہ ایک ایسی شیرنی کی کہانی ہے جس نے انسانی نسل کو بے تحاشہ نقصان پہنچایا اور سرکاری اعدادو شمار کے مطابق اس نے 430 انسانی جانوں کا ضیاع کیا، اس کو مارنے کے لئے سرکاری طور پر کی جانے والی ہر کوشش ناکام ہو گئی یہاں تک کہ سرکار کو فوج کی مدد حاصل کرنا پڑی مگر وہ بھی ناکام ہو گئی۔ ان تمام ناکامیوں کی بنیادی وجہ دو مختلف ملکوںکی سرحد پر اس کی کاروائیاں تھیں ایک ملک میں کچھ عرصہ تباہی مچانے کے بعد شیرنی دوسرے ملک میں چلی جاتی یہ دو ممالک نیپال اور بھارت تھے۔ ان 430 انسانی جانوں کے نقصان کی وجہ سے اس شیرنی کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیا حالانکہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔