اردو ادب میں مزاح کو جو رنگ مشتاق احمد یوسفی نے دیا وہ انہی کا خاصہ ہے، ان کی مزاح نگاری اتنی مقبول ہوئی کہ ان کی کتابوں کے اکثر فقرے مزاحیہ ادب میں ضرب المثل بن گئے جنہیں آج بھی اکثر لوگ اپنے سوشل میڈیا اکاوٗٹس پر شئیر کرتے نظر آتے ہیں۔

ہندوستان پر برطانوی استعماری دور کے حالات و واقعات کو ناول کی شکل میں ترتیب دینے والا عبداللہ حسین کا یہ ناول اردو ادب کے بہترین ناولز میں شامل ہے جو اپنے بہترین اصلوب اور طرز تحریر اور تقسیم ہند کے وقت پیش آنے والے فسادات کے حالات و واقعات کو درست ترتیب سے قارئین تک پہنچانے اور سب سے زیادہ پسندہ قرار دیئے جانے کی وجہ سے صدارتی ایوارڈ حاصل کر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اردو کی بہترین کتابیں منتخب کی جا رہی تھیں تو اس کتاب کو نظر انداز کرنا نہایت مشکل ہو گیا۔

کرنل محمد خان کی ملٹری اکیڈمی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران حالت جنگ میں گزارے ہوئے حالات کی آپ بیتی جس میں انہوں نے حالات و واقعات کو اتنے دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے کہ اس میں اور ایک بہترین ناول میں فرق ممکن نہیں رہتا ہے۔

بنیادی طور پر ایک مزاح نگار کی حیثیت سے شہرت رکھنے والے شفیق الرحمان کی نوک قلم سے جھڑنے والے شگوفے جن کا شگفتہ انداز بیاں، دلچسپ سازشوں کے قصے اور کرداروں کا منفرد پن پڑھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ ان کی کتاب حماقتیں اور اس کے بعد شائع ہونے والا دوسرا حصہ مزید حماقتیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔

بنیادی طور پر ایک مزاح نگار کی حیثیت سے شہرت رکھنے والے شفیق الرحمان کی نوک قلم سے جھڑنے والے شگوفے جن کا شگفتہ انداز بیاں، دلچسپ سازشوں کے قصے اور کرداروں کا منفرد پن پڑھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ ان کی کتاب حماقتیں اور اس کے بعد شائع ہونے والا دوسرا حصہ مزید حماقتیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔

احمد شاہ بخاری پطرس بخاری کے نام سے مشہور ہوئے، انہوں نے گیارہ مضامین لکھے جو ان کے لئے وجہ شہرت بن گئے، 1930 میں یہ مضامین پہلی بار شائع ہوئے اور ان کی شہرت کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ آج بھی یہ مسلسل شائع ہو رہے ہیں اور قارئین میں اتنے ہی مقبول ہیں۔ آسان زبان، اور مزاحیہ اندازبیاں ان مضامین کو ہر پڑھنے والے کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں۔

بانو قدسیہ کا لکھا گیا اردو ناول راجہ گدھ اپنی مرکزی کہانی کے ساتھ ساتھ ایک ایسی سلطنت کا تصور پیش کرتا ہے جہاں گدھوں کی ریاست جیسے قوانین نافذ ہیں گدھ جو اپنی بھوک مٹانے کے لئے دوسروں کی لاشوں پر انحصار کرتے ہیں اسی طرح اس ناول میں مختلف معاشرتی اور مذہبی پابندیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو ایک فرد پر اس کے معاشرے میں عائد ہوتی ہیں۔
ایک اعلی متوسط ​​طبقے کے گھرانے سے تعلق رکھنے والی سیمی شاہ گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے سوشیالوجی کلاس میں اپنے خوبصورت ہم جماعت افتاب سے پیار کرتی ہیں۔

یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے، کہ تقریر و خطابت انتہائی زود اثر دیرپا اور فکر انگیز ملکہ ہے۔ تقریر کبیدہ دل انسانوں کے لئے مرغ سحر کا کام کرتی ہے۔ خطابت اور زور بیانی خوابیدہ صلاحیتوں کو ابھارنے اور جلا بخشنے میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔
اہمیت خطابت کے پیش نظر کہنہ مشق اور قادرالکلام مقرروں نے تقریر کے بہت سے اصول و ضوابط مرتب کیے ہیں، اور بزم خطابت کی سحر کاری اور شعلہ بیانی کے حوالے سے کئی اہم قواعد و نکات کی نشاندہی کی ہے مثلا:

جس طرح ایک فوجی کے لئے وقت کے تقاضوں کے مطابق فنِ حرب و ضرب کا ماہر ہونا ضروری ہے، دفاع کے طریقہ اعداء کو زیر کرنے کے داؤ پیچ خوب جانتا ہو وہی سپاہی فوجی میدان کارزار میں اپنا اور ملک کا نام روشن کرتا ہے اسی طرح ایک طالب علم کے لئے ضروری ہے کہ دورانِ تعلیم جملہ فنون علم میں محنت کر کے کمال حاصل کرے۔
تعلیم، تبلیغ، تدریس کے ساتھ ساتھ اپنے زبان و بیان کی مہارت پیدا کرے اور فنِ تقریر و خطابت میں ملکہ پیدا کرے اس لئے کہ مدرسہ کی چہاردیواری اور احاطہ سے نکل کر دین کی تبلیغ و اشاعت کے لئے اور مختلف مذاہب باطلہ کے مقابلہ کے لئے فن تقریر و خطابت کی ضرورت پڑے گی۔ انہیں تمام امور کو مدنظر رکھتے ہوئے اور طلبہ کی ضرورت کے پیش نظر فاضل نوجوان مولانا محمد یونس صاحب قاسمی مدرس جامعہ کاشف العلوم چھٹمل پور نے طلبہ کے لئے مختلف موضوعات پر مختصر انداز میں تقاریر سپرد قلم کی ہیں جو وقت کی اہم ضرورت ہے امید ہے کہ قدر کی نگاہ سے استفادہ کیا جائے گا۔