علامہ اقبال نے نظم شکوہ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں پڑھی تھی جو اپریل 1909 میں منعقد ہوا تھا۔شفاء الملک حکیم محمد حسن صاحب قریشی جو اس جلسہ میں شریک تھے لکھتے ہیں کہ” جب ڈاکٹر صاحب نے شکوہ میں اپنی سحر انگیز لے مین ندرت تخیل کے اس شاہکار کو پڑھنا شروع کیا تو سارا مجمع مسحور نظر آتا تھا۔ پروفیسر عبدالقادر سرحدی رقمطراز ہیں کہ شکوہ، جواب شکوہ، شمع اور شاعر، حضر راہ اور طلوع اسلام میں سے کسی نظم کا جواب اردو میں نہیں ہے۔
نظم شکوہ میں جس شاعرانہ انداز سے مسلمانوں کی پستی کا گلہ خدا سے کیا گیا ہے اور شکوہ میں ابھرنے کی جو ترکیب بتائی گئی ہے اس نے الہام ربانی کی شان نظر آتی ہے۔واضح ہو کہ نظم شکوہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے اردو ادب میں ایک انوکھی چیز ہے۔ندرت تخیل کے علاوہ اس میں حقیقت نگاری اور شاعرانہ مصوری کی شان بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔اس لفظ میں اقبال نے لفظوں کے ذریعے سے مسلمانوں کی تاریخ کی تصویر کھینچی ہے اور تخیل کے مو قلم سے اس میں ایسی رنگ آمیزی کی ہے کہ حقیقت مجسم سامنے آ جاتی ہے۔
ان سب خوبیوں کے ساتھ شکوہ کی زبان اس قدر دلکش ہے اور اشعار کی سلاست اور روانی کا یہ عالم ہے کہ پڑھنے والے پر محویت کا عالم طاری ہو جاتا ہے۔استعارہ، تشبیہ اور رمز و کنایہ کا تذکرہ ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ تو وہ خصوصیات ہیں جو بانگ درا کی تمام نظموں میں پائی جاتی ہیں۔اردونامہ فورم کی انتظامیہ اپنے کتاب گھر کے قارئین کے لئے اس شکوہ کا بہترین ترجمہ اور تشریح لے کر آئی ہے، اس نظم کی تشریح بترتیب بند ملاحظہ ہو۔
نظم شکوہ کی تشریح
پہلا بند
کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں؟
فکر فردہ کروں محو غم دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
جرائت آموز مری تابِ سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو
پہلا بند
پہلے بند میں شاعر نے تمہید اٹھائی ہے کہ آخر میں کب تک یونہی خاموش بیٹھا ہوا اپنی بربادی کا تماشہ دیکھتا رہوں۔کب تک اپنے مستقبل سے غافل رہوں۔ جب تک مجھے گویائی کی قوت حاصل ہے تو پھر اللہ تعالی کو اپنی رودادِ غم کیوں نہ سناؤں۔
دوسرا بند
ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
ساز خاموش ہیں فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم
اے خدا شکوۂ اربابِ وفا بھی سن لے
خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
دوسرا بند تشریح
اے خدا! یہ سچ ہے کہ تسلیم و رضا ایک مسلمان کا شیوہ ہے لیکن میرے دل میں اس قدر شدید درد ہے کہ میں صبر نہیں کر سکتا اس لیے کہ اگر میں تیری بارگاہ میں اپنے درد کا قصہ بیان کرتا ہوں تو مجھے معذور سمجھ کر معاف کردے اور اپنے عاجز بندے سے جو حمد و ثنا کا عادی ہے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے۔
تیسرا بند
تھی جو موجود ازل سے ہی تری ذاتِ قدیم
پھول تھا زیب چمن پر نہ پریشان تھی شمیم
شرط انصاف ہے اے صاحبِ الطاف عمیم
بوئے گل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم
ہم کو جمعیتِ خاطر یہ پریشانی تھی
ورنہ امت ترے محبوب کی دیوانی تھی
تیسرا بند تشریح
نظم شکوہ کے تیسرے بند میں اقبال فرماتے ہیں یہ سچ ہے کہ تو اپنی ذات کے اعتبار سے قدیم ہے۔ یعنی ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب تو موجود تھا،مگر تیری صفات کی جلوہ گری نہیں ہوئی تھی یعنی یہ کائنات نہ تھی۔اب تو خود انصاف کر کہ اگر مسلمان نہ ہوتے تو تیری صفات کا علم دنیا والوں کو کیسے ہوتا۔
پس مسلمانوں نے دنیا والوں کو تیرے نام سے اور تیری صفات سے آگاہ کیا۔ ہم نے ساری دنیا میں تیرے نام کو بلند کیا اور اس سلسلہ میں ہم نے جس قدر کوشش کی یہ ہمارے لئے راحتِ خاطر کا باعث تھی ورنہ تیرے محبوب کی امت دیوانی تو نہیں تھی کہ اس نے بلاوجہ ساری دنیا کو اپنا دشمن بنایا۔
نوٹ: واضح ہو کے توحید اسلام دراصل دنیائے کفر کے خلاف اعلان جنگ ہے اس لئے جب مسلمانوں نے توحید کا علم بلند کیا تو ساری دنیا ان کی دشمن ہوگی،چناچہ سلطان نور الدین زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی اور مولانا اسماعیل شہید کی زندگی میرے دعوے پر شاہد ہے۔
چوتھا بند
ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
کہیں مسجود تھے پتھر کہیں معبود شجر
خوگرِ پیکر محسوس تھی انساں کی نظر
مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر
تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا
قوت بازوئے مسلم نے کیا کام ترا
چوتھا بند تشریح
اب شاعر خود اپنے دعوے پر دلیل پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اے خدایا ہم (اسلام سے پہلے تیرے بندوں کی یہ حالت تھی کہ وہ) پتھروں اور درختوں کو خدا یقین کرتے تھے چونکہ انسان پیکر محسوس کی پرستش کا عادی ہوچکا تھا اس لئے وہ تجھ کو،کہ تو آنکھ سے نظر نہیں آتا، کیسے اپنا معبود بنا سکتا تھا تجھے خوب معلوم ہے کہ ہمارے وجود سے پہلے چین سے لے کر مراکو تک کوئی شخص تیرا نام لیا نہیں کرتا تھا، مسلمانوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر تیرے نام کو دنیا میں بلند کیا یعنی بنی آدم کو توحید سے روشناس کیا۔
پانچواں بند
بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی تورانی بھی
اہل چیں چین میں ایران میں ساسانی بھی
اسی معمورے میں آباد تھے یونانی بھی
اسی دنیا میں یہودی بھی تھے نصرانی بھی
پر ترے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے؟
بات جو بگڑی ہوئی تھی وہ بنائی کس نے؟
پانچواں بند تشریح
نظم شکوہ کے پانچویں بند میں اقبال نے کہا ہم سے پہلے تیری دنیا میں بہت سی قومیں آباد تھیں۔سلجوقی، ایرانی، چینی، یونانی، یہودی، مجوسی اور نصرانی، لیکن ان میں سے کسی نے بھی تیرے نام کو بلند کرنے کے لئے اپنی جانیں قربان نہیں کیں،مسلمانوں نے ہی توحید کو دنیا میں قائم کیا ہے۔
چھٹا بند
تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں
خشکیوں میں کبھی لڑتے کبھی دریاؤں میں
دس اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہانداروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی
چھٹا بند تشریح
وہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے تیری عظمت دنیا میں قائم کرنے کے لیے ساری دنیا سے لڑائی مول لی۔ خوشکی میں بھی لڑے اور تری میں بھی، کبھی یورپ سے برسرپیکار ہوئے تو کبھی افریقہ سے۔ہم نے دنیا کے تمام بادشاہوں کا مقابلہ کیا اور ان کو زیر کرکے توحید کا پرچم بلند کیا۔
ساتواں بند
ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کی مصیبت کے لیے
اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لیے
تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے
سربکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لیے
قوم اپنی جو زرومال جہاں پر مرتی
بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی
ساتواں بند تشریح
ہم اگر جیتے تھے تو تیری راہ میں جہاد کرنے کے لیے اور مرتے تھے تو تیرے نام کو دنیا میں بلند کرنے کے لیے۔ہم نے کبھی مال و دولت یا حکومت کے لئے جہاد نہیں کیا۔اگر مسلمان مال و دولت کے تمنائی ہوتے تو بت شکنی کے بجائے بت فروشی کرتے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ محمود غزنوی بت شکن تھا بت فروش نہ تھا۔
آٹھواں بند
ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے؟ ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے
زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے
آٹھواں بند تشریح
نظم شکوہ کے آٹھویں بند میں اقبال نے کہا ہم جب میدان جنگ میں سر سے کفن باندھ کر آتے تھے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں مغلوب یامرغوب نہیں کر سکتی تھی۔کیا یہ تاریخی واقعہ نہیں ہے کہ جنگ موتہ میں تین ہزار مسلمانوں نے ایک لاکھ رومیوں کا مقابلہ کیا تھا،ہم ہر اس قوم سے لڑنے کے لیے سربکف رہتے تھے جو تجھ سے سرکشی کرتی تھی، زیر خنجر بھی ہم نے توحید کا پیغام دنیا کو سنایا۔
نواں بند
تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا درِ خیبر کس نے؟
شہر قیصر کا جو تھا اس کو کیا سر کس نے؟
توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے؟
کاٹ کر رکھ دیئے کفار کے لشکر کس نے؟
کس نے ٹھنڈا کیا آتشکدۂ ایراں کو؟
کس نے پھر زندہ کیا تذکرۂ یزداں کو؟
نواں بند تشریح
وہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے خیبر کا دروازہ اکھاڑ پھینکا تھا،قسطنطنیہ کو فتح کیا،بت خانوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور کفار کے لشکر کاٹ کر رکھ دیے، ایران کے آتشکدہ کو ٹھنڈا کردیا اور تیرے نام کو زندہ کر دیا۔
دسواں بند
کون سی قوم فقط تیری طلبگار ہوئی؟
اور تیرے لیے زحمت کش پیکار ہوئی؟
کس کی شمشیر جہانگیر جہاندار ہوئی؟
کس کی تکبیر سے دنیا تیری بیدار ہوئی؟
کس ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے؟
منہ کے بل گر کے هو الله احد کہتے تھے؟
دسواں بند تشریح
مسلمانوں کے علاوہ اور کس قوم نے تجھ سے محبت کی؟ کس قوم نے تیرے اور تیرے رسولﷺ کی عزت کے لیے اپنا خون پانی کی طرح بہایا؟کس قوم کی تکبیروں سے دنیا میں توحید کا نور پھیلا؟ بتوں کے پوجنے والے کس قوم کی ہیبت سے لرزہ براندام رہتے تھے.؟
گیارہواں بند
آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز
قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قومِ حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
گیارہواں بند تشریح
نظم شکوہ کے گیارہویں بند میں اقبال نے کہا عین جنگ کی حالت میں بھی جس وقت نماز کا وقت آجاتا تھا تو ہم قبلہ رح ہو کر تیری بارگاہ میں حاضر ہو جاتے تھے،اور ہماری مساوات کا یہ عالم تھا کہ اس وقت محمودوایاز یعنی آقا اور غلام ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے تھے۔
بارہواں بند
محفلِ کون و مکاں میں سحر و شام پھرے
مئے توحید کو لے کر صفتِ جام پھرے
کوہ میں دشت میں لے کر ترا پیغام پھرے
اور معلوم ہے تجھ کو کبھی ناکام پھرے
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
بارہواں بند تشریح
ہم نے دنیا میں مشرق سے لے کر مغرب تک تیرے نام کا ڈنکا بجا دیا،ہم نے ساری دنیا کو تیرا پیغام سنایا اور تو جانتا ہے کہ ہم کو اس مقصد میں کبھی ناکامی نہیں ہوئی، ہم کسی قوم سے مرعوب نہیں ہوئے،خوشکی کا تو ذکر ہی کیا ہے ہم نے سمندر عبور کرکے تیرا پیغام دنیا کو سنایا اور ہم عرب سے جو نکلے تو بحرظلمات تک توحید کا پرچم اڑاتے چلے گئے۔
تیرہواں بند
صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے
نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے
تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے
تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں
تیرہواں بند تشریح
نظم شکوہ کے تیرہویں بند میں اقبال نے کہا ہم نے دنیا سے کفر کو مٹا دیا اور بنی آدم کو ہر قسم کی خامی سے آزادی عطا کی،ہم نے تیرے کعبہ کی حفاظت کی اسے آباد کیا اور تیرے پاک کلام کو ہمیشہ سینے سے لگایا،اس کے باوجود تو ہم سے ناراض ہے اور تجھے ہم سے یہ شکایت ہے کہ ہم بے وفا ہیں!
چودہواں بند
امتیں اور بھی ہیں ان میں گنہگار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں مست مئے پندار بھی ہیں
ان میں کامل بھی ہیں غافل بھی ہیں ہشیار بھی ہیں
سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں
رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
چودہواں بند تشریح
ہمارے علاوہ اس دنیا میں دوسری قومیں بھی آباد ہیں۔ ان میں نیک بھی ہیں اور بد بھی،باعمل بھی ہیں اور بہت سے لوگ تیرے منکر بھی ہیں۔اس کے باوجود تو ان پر مہربان ہے لیکن مسلمان تیری نظر کرم سے محروم ہیں۔
پندرہواں بند
بت صنم خانوں میں کہتے ہیں مسلمان گئے
ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے
منزل دہر سے اونٹوں کے حدی خواں گئے
اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے
خندہ زن کفر ہے احساس تجھے ہے کہ نہیں
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں
پندرہواں بند تشریح
نظم شکوہ کے اس بند میں اقبال نے کہا آج مسلمانوں کی پستی کی یہ حالت ہے کہ بت خانوں میں بپ پرست خوشی کے لہجے میں یہ کہتے ہیں کہ مسلمان بہت جلد صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں گے،اور ان کے بعد دنیا میں کوئی بھی شخص نہ مکہ جائے گا نہ مدینہ اور نہ دنیا میں کوئی قرآن مجید کا نام لے گا۔اے خدا! آج کافر ہم پر طنز کے تیر برسا رہے ہیں اور اسلام کی ہنسی اڑا رہے ہیں! کیا تجھے اپنی توحید کی بقاء کا اب کوئی خیال نہیں ہے؟ کیا تو یہ پسند کرے گا کہ کفر اسلام پر غالب آجائے؟
سولہواں بند
یہ شکایت نہیں ہیں ان کے خزانے معمور
نہیں محفل میں جنھیں بات بھی کرنے کا شعور
قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور
اور بچارے مسلمان کو فقط وعدۂ حور
اب وہ الطاف نہیں ہم پہ عنایات نہیں
بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں
سولہواں بند تشریح
مجھے یہ شکایت نہیں کہ غیرمسلم دولت مند کیوں ہیں؟افسوس صرف یہ ہے کہ ان کو ساری نعمتیں حاصل ہیں اور مسلمانوں سے صرف یہ وعدہ ہے کہ مرنے کے بعد جنت ملے گی، یہ بات کیا ہے کہ اب تو ہم پر زمانہ سابق کی طرح مہربان نہیں ہے۔
سترہواں بند
کیوں مسلمانوں میں ہے دولتِ دنیا نایاب
تیری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب
تو جو چاہے تو اٹھے سینۂ صحرا سے حباب
رہرو دست ہو سیلی زدۂ موج سراب
طعن اغیار ہے رسوائی ہے ناداری ہے
کیا تیرے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے
سترہواں بند تشریح
نظم شکوہ کے اس بند میں اقبال نے کہا آج مسلمان سب قوموں سے زیادہ مفلس اور نادار ہیں حالانکہ تو قادر مطلق ہے اور تیرے خزانے میں کسی چیز کی کمی نہیں۔ اگر تو چاہے تو ریگستان کو سمندر میں تبدیل کر سکتا ہے۔آج ہم غیروں کے طعنے سن رہے ہیں، رسوا ہیں، نادار ہیں۔ یا خدا! کیا مسلمان ہونے کا صلہ یہ ہے کہ ہم دنیا کی نظروں میں ذلیل ہو جائیں؟
اٹھارہواں بند
بنی اغیار کی اب چاہنے والی دنیا
رہ گئی اپنے لیے ایک خیالی دنیا
ہم تو رخصت ہوئے اوروں نے سنبھالی دنیا
پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا
ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے
کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے جام رہے
اٹھارہواں بند تشریح
اے خدا اس وقت حالت یہ ہے کہ دنیا اور اس کی دولت تو اغیار کے قبضہ میں ہے۔ مسلمان صرف خیالی دنیا میں رہتے ہیں تیری دنیا پر انہیں کوئی اقتدار حاصل نہیں ہے،اے خدا ہم تو اس لیے دنیا میں رہنا چاہتے ہیں کہ توحید قائم رہے اور تیرا نام زندہ رہے لیکن یہ تو نا ممکن ہے کہ مسلمانوں کے فنا ہوجانے کے بعد تیرا نام باقی رہے۔
نوٹ: نظم شکوہ کے اس بند میں اشارہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ان الفاظ کی طرف جو جنگ بدر کے موقع پر آپﷺ کی زبان مبارک سے نکلے تھے”اے خدا اگر یہ مٹھی بھر جماعت آج فنا ہوگی تو پھر تو قیامت تک نہ پوجا جا سکے گا”
انیسواں بند
تیری محفل بھی گئی چاہنے والے بھی گئے
شب کی آہیں بھی گئیں صبح کے نالے بھی گئے
دل تجھے دے بھی گئے اپنا صلہ لے بھی گئے
آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے
آئے عشاق گئے وعدۂ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
انیسواں بند تشریح
نظم شکوہ کے اس بند میں اقبال نے کہا اے خدا آج یہ کیفیت ہے کہ مسلمان ہر جگہ ذلیل و خوار ہیں اور جو لوگ تیرے نام پر سر کٹانے کے لئے تیار رہتے تھے رفتہ رفتہ ختم ہو رہے ہیں،انہوں نے اگر تجھ سے محبت کی تو اسکا صلہ بھی انہیں مل گیا۔ انہوں نے تیرے نام پر سر کٹایا ،تو نے ان سے جنت کا وعدہ کیا اور ہنستے ہوئے رخصت ہوگئے لیکن اب ان لوگوں سے تیری محفل خالی ہوچکی ہے۔
بیسواں بند
درد لیلی بھی وہی، قیس کا پہلو بھی وہی
بخود کے دشت و جبل میں رم آہو بھی وہی
عشق کا دل بھی وہی، حسن کا جادو بھی وہی
امت احمد مرسل بھی وہی تُو بھی وہی
پھر یہ آزردگئ غیر سبب کیا معنیٰ
اپنے شیداؤں پہ یہ چشمِ غضب کیا معنیٰ
بیسواں بند تشریح
نظم شکوہ کے اس بند میں اقبال نے کہا اے خدا! اسلام کی خوبیاں بدستور موجود ہیں اور مسلمانوں کی اسلام سے محبت بھی برقرار ہے۔حج کعبہ کا سلسلہ بھی اسی طرح جاری ہے، مسلمانوں کے جذبات عاشقی اسی طرح زندہ ہیں، اسلام کی دلکشی بھی بدستور قائم ہے،ہم بھی وہی ہیں جو تھے اور تو بھی وہی ہے جو تھا،پھر یہ اس ناراضگی کا سبب کیا ہے؟
اکیسواں بند
تجھ کو چھوڑا کہ رسولِ عربی کو چھوڑا
بت گری پیشہ کیا بت شکنی کو چھوڑا
عشق کو عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا
رسم سلمان و اویس قرنی کو چھوڑا
آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں
زندگی مثل بلال حبشی رکھتے ہیں
اکیسواں بند تشریح
اے خدا! تو ہی بتا آخر ہم نے کیا قصور کیا ہے؟ تجھ کو بھلا دیا؟ تیرے رسولﷺ کو فراموش کر دیا؟ بت پرستی اختیارکرلی؟ سرور دو عالمﷺ سے محبت ترک کر دی؟حضرت سلیمان اور حضرت اویس کی تقلید ترک کردی؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم تو اب بھی توحید کی آگ اپنے سینوں میں پوشیدہ رکھتے ہیں اور حضرت بلال کی طرح تیرے نام پر سختیاں جھیلنے کے لیے تیار ہیں۔
بائیسواں بند
عشق کی خیر وہ پہلی سی ادا بھی نہ سہی
جادہ پیمائی تسلیم و رضا بھی نہ سہی
مضطرب دل صفتِ قبلہ نما بھی نہ سہی
اور پابندئ آئینِ وفا بھی نہ سہی
کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے
بائیسواں بند تشریح
نظم شکوہ کے اس بند میں اقبال نے کہا یہ مانا کہ ہم عشق و محبت میں اسلاف یعنی اگلوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور ہمارے اندر تسلیم ورضا بھی نہیں ہے جو ان بزرگوں میں پایا جاتا تھا اور ہم اس حد تک اسلام کے پابند اور شریعت کے وفادار نہیں۔لیکن گستاخی معاف ہو “کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے” یہ بات ہماری سمجھ میں تو آئی نہیں۔
تئیسواں بند
سر فاراں پہ کیا دین کو کامل تو نے
ایک اشارے میں ہزاروں کے لیے دل تو نے
آتش اندوز کیا عشق کا حاصل تو نے
پھونک دی گرمئ رخسار سے محفل تو نے
آج کیوں سینے ہمارے شرر آباد نہیں
ہم وہی سوختہ ساماں ہیں تجھے یاد نہیں
تئیسواں بند تشریح
نظم شکوہ کے اس بند میں اقبال نے کہا یہ حقیقت ہے کہ اسلام کا آفتاب کوہ فاراں کی چوٹیوں سے طلوع ہوا اور تو نے اس دین کو کامل کر دیا.چناچہ ہزاروں لاکھوں آدمی اسلام کی خوبیوں کو دیکھ کر حضور اکرمﷺ کی غلامی میں داخل ہوگئی اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے دل میں تیری محبت کی آگ روشن کردی۔چناچہ ان بزرگوں نے اس آگ کی بدولت اس دنیا کو اسلام کا گرویدہ بنا دیا لیکن ہم بھی تو انھیں مسلمانوں کی اولاد میں سے ہیں، پھر ہمارے اندر آگ کیوں سرد ہوگئی ہے؟
چوبیسواں بند
وادئ نجد میں وہ شورِ سلاسل نہ رہا
قیس دیوانۂ نظارۂ محمل نہ رہا
حوصلے وہ نہ رہے، ہم نہ رہے، دل نہ رہا
گھر یہ اجڑا ہے کہ تو رونقِ محفل نہ رہا
اے خوش آں روز کہ آئی و بصد ناز آئی
بے حجابانہ سوئے محفلِ ماباز آئی
چوبیسواں بند تشریح
نظم شکوہ کے اس بند میں اقبال نے کہا اب مسلمانوں میں عشق رسولﷺ کا وہ جذبہ نظر نہیں آتا، مسلمان اسلام پر دیوانہ وار نثار نہیں ہوتے، اب مسلمانوں کو اسلام سے وہ محبت باقی نہیں رہی۔حقیقت تو یہ ہے کہ اب نہ ہمارے اندر وہ حوصلہ ہے نہ ہمت ہے۔آخر کیا بات ہے؟ کاش تو پھر ہم پر ایک نگاہ کرم کرے اور پھر ہماری محفل میں تشریف فرما ہو۔
پچیسواں بند
بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب جو بیٹھے
سنتے ہیں جام بکف نغمۂ کو کو بیٹھے
درد ہنگامۂ گلزار سے یک سو بیٹھے
تیرے دیوانے بھی ہیں منتظر ھو بیٹھے
اپنے پروانوں کو پھر ذوقِ خود افروزی دے
برق دیرینہ کو فرمان جگر سوزی دے
پچیسواں بند تشریح
نظم شکوہ کے اس بند میں اقبال نے کہا اے خدا! آج یہ حالت ہے کہ اغیار عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں، دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، ان کی محفل عیش سے بہت دور سمٹے سمٹائے کچھ فاقہ مست مسلمان بیٹھے ہیں اور تیری نگاہِ کرم کے منتظر ہیں۔ اے خدا! تو ہم پر اپنا فضل نازل کر اور ہمارے دلوں میں پھر اپنی محبت کی آگ روشن کردے۔
چھبیسواں بند
قوم آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز
لے اڑا بلبل بے پر کو مذاقِ پرواز
مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے نیاز
تو ذرا چھیڑ تو دے تشنۂ مضراب ہے ساز
نغمے بے تاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے
طور مضطر ہے اسی آگ میں جلنے کے لئے
چھبیسواں بند تشریح
نظم شکوہ کے اس بند میں اقبال نے کہا اے خدا! مسلمان قوم اپنی غلطی پر نادم ہے. اب پھر تیری طرف جھک رہی ہے اگرچہ قوم ‘بے پر’ ‘بے زر’ ہے لیکن اس میں پرواز ترقی کا جذبہ موجود ہے۔قوم کے ہر فرد کے دل میں عشق رسولﷺ کا جذبہ کارفرما ہے۔ بس تیری اک نگاہِ کرم کی دیر ہے مسلمان پھر دنیا پر غالب آ سکتے ہیں،مسلمان پھر تیری راہ میں سر کٹانے کے لیے تیار ہوسکتے ہیں، پوری قوم تیری راہ میں سر فروشی کیلئے آمادہ ہے۔
ستائیسواں بند
مشکلیں امت مرحوم کی آساں کر دے
مور بے مایہ کو ہمدوشِ سلیماں کر دے
جنس نایابِ محبت کو پھر ارزاں کر دے
ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کر دے
جوئے خوں می چکداز حسرتِ دیرینۂ ما
می تپد نالہ بہ نشتر کدۂ سینۂ ما
ستائیسواں بند تشریح
نظم شکوہ کے اس بند میں اقبال نے کہا اے خدا! ہماری مصیبتوں کو دور کردے! ہمیں جو کہ اس وقت بہت مفلس اور حقیر ہیں پھر سلیمان کا ہم مرتبہ بنا دے! ہمارے دلوں میں عشق رسولﷺ کی آگ بھڑکا دے! ہم ہندی مسلمانوں کو، جو کے نام کے مسلمان ہیں سچا مسلمان بنا دے۔
اٹھائیسواں بند
بوئے گل لے گئی بیرونِ چمن راز چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غمّازِ چمن
عہدِ گل ختم ہوا ٹوٹ گیا ساز چمن
اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرواز چمن
ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک
اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک
اٹھائیسواں بند تشریح
نظم شکوہ کے اس بند میں اقبال نے کہا اب شاعر اپنے دل سے باتیں کرتا ہے کہ افسوس! مسلمانوں نے خود غیروں کو قوم کی کمزوریوں سے آگاہ کردیا،میر جعفر اور میر صادق نے مسلمان ہوکر اسلام کو ضعف پہنچایا ان غداروں اور منافقوں کی بدولت چمن برباد ہوگیا، سلطنت ختم ہوگئی، قوم غلام بن گئی اور اسلام کے شیدائی میں ایک ایک کرکے قوم پر نثار ہو گئے۔بس سارے باغ میں ایک بلبل یعنی اقبال کی ذات رہ گئی ہے جو نغمہ پروازی کر رہی ہے اور اس کے سینے میں ابھی تک جذبات کی شدت موجود ہے۔
انتیسواں بند
قمریاں شاخِ صنوبر سے گریزاں بھی ہوئیں
پتّیاں پھول کی جھڑ جھڑ کے پریشاں بھی ہوئیں
وہ پرانی روشیں باغ کی ویراں بھی ہوئیں
ڈالیاں پیرہنِ برگ سے عریاں بھی ہوئیں
قید موسم سے طبیعت رہی آزاد اس کی
کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی
انتیسواں بند تشریح
نظم شکوہ کے اس بند میں اقبال نے کہا اگرچہ قوم کے اکثر رہنماؤں نے خدمت قوم کے بجائے ‘خدمت سرکار’ کو اپنا شعار بنا لیا اور لیڈروں کی اس خودغرضی اور ضمیر فروشی کا نتیجہ یہ نکلا کہ قوم کے افراد تباہ ہوگئے. مسلمانوں کی تہذیب اور معاشرت سب ختم ہوگی (باغ کی پرانی روشیں وران ہوگئیں)
تیسواں بند
لطف مرنے میں ہے باقی نہ مزہ جینے میں
کچھ مزا ہے تو یہی خونِ جگر پینے میں
کتنے بے تاب ہیں جوہر مرے آئینے میں
کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں
اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں
تیسواں بند تشریح
نظم شکوہ کے اس بند میں اقبال نے کہا چونکہ قوم مردہ ہوچکی ہے یعنی احساس سے عاری ہو چکی ہے اس لیے نہ جینے میں لطف ہے نہ مرنے میں کوئی مزہ ہے۔ بس دن رات خون جگر پیتا ہوں اور قوم کی بے حسی پر نوحہ خوانی کرتا رہتا ہوں۔میرے سینہ میں سینکڑوں جذبات اور خیالات ہیں جو ظہور کے لئے بے تاب ہے لیکن افسوس! قوم میں ان کے قدر دان موجود ہی نہیں۔اگر قوم کے دل میں ملت کا درد ہوتا تو وہ کسی درد مند کے جذبات کو سمجھ سکتی تھی۔
اکتیسواں بند
چاک اس بلبل تنہا کی نوا سے دل ہوں
جاگنے والے اسی بانگِ درا سے دل ہوں
یعنی پھر زندہ نئے عہدِ وفا سے دل ہوں
پھر اسی بادۂ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں
عجمی خم ہے تو کیا مے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری
اکتیسواں بند تشریح
نظم شکوہ کے آخری بند میں اقبال نے کہا اے خدا! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ میرے کلام میں ایسی تاثیر پیدا کر دے کہ مسلمانوں کے قلوب اس کے مطالعہ سے متاثر ہو سکیں اور ان کے اندر احساس زیاں پیدا ہوجائے تاکہ وہ تجھ سے دوبارہ پیمان وفا باندھ سکیں اور پھر اسلام اور قرآن مجید کی محبت ان کے دلوں میں موجزن ہو اور انہی دونوں کو زندگی کا لائحہ عمل بنا لیں۔ آمین۔
اگر میں نے اپنا پیغام شعر کی صورت میں پیش کیا ہے تو کیا مضائقہ ہے۔ پیغام کی روح تو قرآن مجید سے ماخوذ ہے (عجمی خم ہے تو کیا مے تو حجازی ہے میری) اگر میں نے اردو زبان میں شاعری کی ہے تو کیا ہوا مضامین اور خیالات کو اسلامی ہیں (نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے میری)۔
اختتامیہ
علامہ محمد اقبال کی نظم "شکوہ” ایک گہری معنویت کا حامل ادبی شاہکار ہے، جو مسلم قوم کی فعالیت، جذباتیت اور روحانی مسائل کو بیان کرتی ہے۔ اس نظم میں انہوں نے نہ صرف امت مسلمہ کی تاریخی کامیابیوں کا ذکر کیا ہے، بلکہ موجودہ زمانے کے مسائل اور چیلنجوں کو بھی اجاگر کیا ہے۔ اقبال نے ایک ایسی امید کی کرن دکھائی ہے جس سے ہر مسلمان کا دل روشن ہو سکتا ہے، یہ امید کہ ایک دن قوم اپنے عروج کی جانب لوٹ سکتی ہے۔
"شکوہ” میں علامہ اقبال کی ترقی پسندی کے ساتھ ساتھ ان کی گہری معنویت اور قومی اقدار سے محبت واضح نظر آتی ہے۔ پھر چاہے وہ اسلام کی تاریخ ہو یا پھر مستقبل کی امنگیں، اقبال کی شاعری ہر پہلو سے قوم کی گہرے اور حقیقی احساسات کا عکس بنتی ہے۔ ان کی شاعری میں وہ تڑپ و پیچ و تاب ہے جو ہر دور میں مسلمانوں کو ایک نئی روحانی بیداری کی جانب متوجہ کرتی ہے۔
"شکوہ” کی یہ تشریح فقط اس شاہکار کی سرسری جھلک ہے، جس میں علامہ اقبال نے اپنی پُرجوش اور سحرانگیز شاعری سے ہمیں اپنے دل کی گہرائیوں میں جھانکنے کا موقع دیا ہے۔ ہمیں مستقبل کی روشن راہوں کی جانب رہنمائی کی ہے تاکہ ہم نہ صرف اپنے ماضی کے عظیم کرداروں کی یادوں کو تازہ کریں، بلکہ آیندہ کے لیے بھی ایک مضبوط اور روشن خیال مستقبل کی تعمیر کریں۔
"شکوہ” اور اس کا جواب "جواب شکوہ” مل کر ایک ایسی فکری اور روحانی سرگرمی کو جنم دیتے ہیں، جو قوم کی تقدیر کو بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔ یہ محض ایک نظم نہیں، بلکہ ایک حرکت ہے جو ہمیں مسلسل ایک بہتر، متحد اور جوانمردی سے مالا مال مستقبل کی جانب لے جاتی ہے۔
علامہ محمد اقبال کی نظم "شکوہ” کی مکمل تشریح پر مشتمل ایک جامع PDF دستاویز اب ڈاؤنلوڈ کے لیے دستیاب ہے۔ یہ تشریح اقبال کی شاعری کی گہرائیوں اور فلسفیانہ مطالب کو سمجھنے میں آپ کی مدد کرے گی۔ اس تشریح میں شامل ہر بند کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، تاکہ قاری اقبال کے اس عظیم کلام کی روح کو چھو سکے۔ نظم کی اس PDF تشریح کو یہاں کلک کر کے ڈاؤنلوڈ کریں اور علامہ اقبال کی فکری عظمت سے روشناس ہوں۔
Get No. 1 Professional Speech Writing Services English – Urdu Speech Writing on any Topic