یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے، کہ تقریر و خطابت انتہائی زود اثر دیرپا اور فکر انگیز ملکہ ہے۔ تقریر کبیدہ دل انسانوں کے لئے مرغ سحر کا کام کرتی ہے۔ خطابت اور زور بیانی خوابیدہ صلاحیتوں کو ابھارنے اور جلا بخشنے میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔
اہمیت خطابت کے پیش نظر کہنہ مشق اور قادرالکلام مقرروں نے تقریر کے بہت سے اصول و ضوابط مرتب کیے ہیں، اور بزم خطابت کی سحر کاری اور شعلہ بیانی کے حوالے سے کئی اہم قواعد و نکات کی نشاندہی کی ہے مثلا:

جس طرح ایک فوجی کے لئے وقت کے تقاضوں کے مطابق فنِ حرب و ضرب کا ماہر ہونا ضروری ہے، دفاع کے طریقہ اعداء کو زیر کرنے کے داؤ پیچ خوب جانتا ہو وہی سپاہی فوجی میدان کارزار میں اپنا اور ملک کا نام روشن کرتا ہے اسی طرح ایک طالب علم کے لئے ضروری ہے کہ دورانِ تعلیم جملہ فنون علم میں محنت کر کے کمال حاصل کرے۔
تعلیم، تبلیغ، تدریس کے ساتھ ساتھ اپنے زبان و بیان کی مہارت پیدا کرے اور فنِ تقریر و خطابت میں ملکہ پیدا کرے اس لئے کہ مدرسہ کی چہاردیواری اور احاطہ سے نکل کر دین کی تبلیغ و اشاعت کے لئے اور مختلف مذاہب باطلہ کے مقابلہ کے لئے فن تقریر و خطابت کی ضرورت پڑے گی۔ انہیں تمام امور کو مدنظر رکھتے ہوئے اور طلبہ کی ضرورت کے پیش نظر فاضل نوجوان مولانا محمد یونس صاحب قاسمی مدرس جامعہ کاشف العلوم چھٹمل پور نے طلبہ کے لئے مختلف موضوعات پر مختصر انداز میں تقاریر سپرد قلم کی ہیں جو وقت کی اہم ضرورت ہے امید ہے کہ قدر کی نگاہ سے استفادہ کیا جائے گا۔

دین سے دوری، مذہب بیزاری اور پروپیگنڈہ کے دور پرفتن میں تقریر و تحریر، تبلیغ و خطابت اور وعظ و ارشاد کی اہمیت و ضرورت بہت بڑھ گئی ہے۔ برائیوں کا سیلاب ایسا امنڈ آیا ہے کہ الامان و الحفیظ، گھر گھر، بستی بستی، شہر شہر اور افراد و معاشرہ اس میں ڈوبتے جا رہے ہیں، نیکیاں محدود اور نیک لوگ کم سے کمتر ہورہے ہیں، نئی نسل اور مسلم معاشرہ شتر بے مہار ہو رہا ہے۔
اور ایسا دین کی بنیادی اور ضروری معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ہو رہا ہے اس لئے ضروری ہے کہ کسی تاخیر کے بغیر کم ازکم یہ عمل شروع ہو جائے کہ مدارس دینیہ کا ہر طالب علم اور دینی تحریکات کا ہر فرد بشر فائدہ اٹھا کر عوام الناس تک دین پہنچائے۔ انشااللہ اس سے دینی لہر اور دینی بیداری پیدا ہو گی اور خوشگوار نتائج برآمد ہوں کے۔ اسی سلسلے کی ایک اہم کوشش پرکیف تقریریں کے نام سے آپ کے ہاتھ میں ہے۔