حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ پر ایک بہترین اردو تقریر
صدر ذی وقار محترم حاضرین و سامعین ! آج میں اردونامہ کے فورم سے جس ایمان افروز موضوع کو اصحاب ایمان کے اس ایوان کی زینت بنانا چاہتا ہوں وہ ہے۔ اک عرب نے آدمی کا بول بالا کر دیا۔
صدر محترم
کہتے ہیں باران رحمت کی سب سے زیادہ ضرورت وہاں محسوس کی جاتی ہے جہاں زمین خشک سالی کی بناء پر اناج کی کونپلوں کی جگہ بول اگلنے لگے۔
حضور نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ بھی اس ریگزار عرب میں کتاب رحمت بن کر تشریف لائے تھے کہ جہاں انسانی تہذیب و تمدن اور اخلاق و کردار کے سوتے خشک ہو چکے تھے اور جہاں صلح و خیر کے گلہائے تازہ کی جگہ ظلم و تعدی اور کفر و شرک کے جھاڑ جھنکار اگ رہے تھے۔
وہاں کے تپتے ہوئے صحراؤں اور ظلم و ستم کی باد سموم سے جھلتے ریگستانوں میں خدا کی عظمت و تقدیس اور انسانی عظمت کردار کے سے شرم و حیا کے پانی کی بوند خشک ہو چکی تھی۔ ایسے وقت میں جب حضور پر نور جناب نبی محمد ﷺرسول و برکت بن کر آئے تو یکا یک ہی کشت ایمان و یقین لہلہا اٹھی۔ شاعر نے اسی احساس کی ترجمانی یوں کی ہے۔
سلام اے آمنہ کے لال اے محبوب سبحانی
سلام اے فخر موجودات فخر نوع انسانی
ترے آنے سے رونق آگئی گلزار ہستی میں
شریک حال قسمت ہو گیا پھر فضل ربانی
حاضرین کرام ! حضور عالی نظام کی تشریف آوری سے قبل عالم عرب بے شمار خباثتوں اور جہالتوں کا شکار ہو چکا تھا۔ کفر و شرک کے علاوہ انسانی حقوق کی بے دردی سے پامالی اور اخلاقی اقدار کی بے حرمتی کی بدولت عرب معاشرہ شرمناک حد تک قعر مذلت میں غرق ہو چکا تھا۔
اس دور کا انسان اخلاق و شرافت کا نام تک سننے کا روادار نہ تھا۔ شراب ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ جوا قمار بازی اور زنا کاری قطعا نہ موم فعل تصور نہیں کئے جاتے تھے بلکہ ان کو جوانی کا اعزاز اور مردانگی کا افتخار سمجھا جاتا تھا۔
جناب صدرا کوئی شخص بیٹی کا باپ کہلانا پسند نہیں کرتا تھا اور اگر کسی کے ہاں بیٹی جنم لے لیتی تو اسے زندہ زمین میں گاڑ دیا جاتا تھا۔ وہ لوگ انسانی عظمت کردار کے نہیں بلکہ ذاتی حسب و نسب کی برتری اور خاندانی تفاخر کے اسیر تھے۔ لڑائی جھگڑا اور قتل و غارت گری ان کی قبائلی زندگی کا لازمی جزو بن چکے تھے۔
معمولی معمولی باتوں پر تلواریں نیاموں سے باہر آجائیں اور پیاسے ریگستانوں کی پیاس بجھنے لگتی۔ عکاظ کا میلہ قبائلی تعصیات اور فخر و مباہات کے نعروں سے شروع ہو کر برسوں تک جاری رہنے والی لڑائیوں کیلئے موزوں ترین مقام قرار پا چکا تھا۔ بعض معمولی لڑائیوں سے طویل جنگ کی ایک ایسی بھٹی سلگ اٹھتی کہ ہزاروں عرب اپنے بھائیوں کی تلواروں کا شکار بن کر اس کا ایندھن بن جاتے۔
لیکن جناب والا! نبی کریم ﷺانسانی حقوق کے محافظ بن کر جلوہ افروز عالم ہوئے تو حالات نہایت تیزی سے بدلنے لگے۔ آپ ﷺ کام کے فیوض و برکات کی بدولت انسانی حقوق کو پامال کرنے والے انسانی اقدار کی محافظت کا فریضہ انجام دینے لگے۔ راہزن راہبر بن گئے۔ بت پرست بت شکن بن گئے۔
بے حیاؤں کو شرم و غیرت کا شعور میسر آ گیا۔ آپ نبی کریم ﷺکے ارشاد کی تاثیر کی عظمت اس وقت دیکھنے میں آئی کہ جب آپ نبی کریم ﷺ حکم خداوندی کے مطابق شراب کو حرام قرار دیا تو شراب پانی کی طرح شہر نبی کی گلیوں میں بہا دی گئی، دشمن دوست بن گئے۔ اخلاق و شرافت کی دھجیاں بکھیرنے والے رفعت کردار کا نمونہ بن گئے ۔ ذرا ذراسی بات پر قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والے انسانیت کی عظمت اور تقدیس پر ایمان لے آئے اور اپنی ذات سے بڑھ کر دوسروں کے حقوق کی پاسداری کرنے لگے۔
کس نے قطروں کو ملایا اور دریا کر دیا
کس نے ذروں کو اٹھایا اور صحرا کر دیا
کس کی حکمت نے یتیموں کو کیا در یتیم
اور غلاموں کو زمانے بھر کا مولا کر دیا
آدمیت کا غرض سامان مہیا کر دیا
اک عرب نے آدمی کا بول بالا کر دیا
جناب صدر! آج دنیا مساوات کے نعرے لگا رہی ہے، پسماندہ اور کچلے ہوئے انسان رنگ ونسل اور ذات پاک کی زنجیروں کو توڑ کر ابھرنا چاہتے ہیں۔ وہ انسانی حقوق کی بالا دستی کے نام پر اپنی پسماندگی اور سماجی زبوں حالی کا مداوا چاہتے ہیں۔ لیکن باوجود اپنی انتہائی کوشش کے وہ اس سماجی اونچ نیچ، طبقاتی حد بندی اور معاشرتی عدم مساوات کی دیواروں میں شگاف پیدا نہیں کر سکے۔
نظریات کے نام پر اپنا سب کچھ تج دینے کے باوجود بھی ایک نچلے طبقے کا انسان اپنے سے اوپر کے زینے پر بیٹھنے والے کے برابر نہیں بیٹھے سکتا۔ افریقہ کا حبشی چاہے تو کریم رگڑتے رگڑتے اپنی کھال تک چھیل ڈالے مگر وہ حقوق میں گورے کے برابر نہیں ہوسکتا۔ ہندوستان کا اچھوت انتہائی اپٹوڈیٹ ہونے کے باوجود براہمن کے حقوق نہیں پا سکتا اور امریکہ کا ریڈ انڈین بر سر اقتدار سفید فام طبقے کی برابری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
لیکن اسلام کی آغوش میں جو بھی آتا ہے وہ رنگ ونسل کے امتیازات اور ذات برادری کی تفریق کو بھول کر ایک ملت مسلمہ میں گم ہو جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺنے ایک صحابی رضی اللہ کو اپنے غلام کو مارتے دیکھا تو فرمایا:
جتنا قابو تم کو غلام پر ہے اس سے زیادہ قابو تم پر اللہ کو ہے۔
صحابی رضی اللہ نے ہاتھ روک کر عرض کیا
حضور نبی کریم ﷺ یہ غلطی سے باز نہیں آتا ۔
حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا:
معاف کرو حتیٰ کہ باز آ جائے۔
صحابی رضی اللہ نے یہ سنتے ہی اس وقت غلام کو آزاد کر دیا۔
سرداران قریش کہا کرتے تھے کہ:
اے نبی محمد ﷺ ہم تمہاری محفل میں کیسے آئیں، جب کہ وہاں کمین بھی بیٹھے ہوتے ہیں۔
لیکن اس نبی رحمت سراپا مجسم نے امیروں کی خاطر غریبوں کو دھتکارنے سے انکار کر دیا اور الفقر فخری کو اپنا افتخار بناتے ہوئے زمانے بھر کے مظلوم و مقہور انسانوں کو اپنی پناہ میں لے لیا۔ آپﷺ کی غلاموں سے شفقت کا یہ عالم تھا کہ آپ بنی کریم ﷺ حضرت بلال رضی اللہ کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کہا کرتے تھے۔
جناب والا قدر! حضور صاحب لولاک نبی کریم ﷺ کی سیرت مطہرہ انسانی زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہے۔ آپ نبی کریم ﷺ نے شاہراہ حیات پر جو تا بندہ نقوش ثبت کئے ہیں، وہ کائنات کے ہر منشور سے زیادہ قابل تقلید ہر دستور سے زیادہ محترم اور ہر ضابطہ حیات سے زیادہ قابل عمل ہیں۔
پر امن شہری کی حیثیت سے فتح عظیم کے شادیانے بجانے والی فوج کے سالار اعلیٰ کی حیثیت سے لاکھوں مربع میل پر مشتمل عظیم سلطنت کے مقتدر اعلیٰ کی حیثیت سے عدل و انصاف کا پرچم سر بلند رکھنے والے منصف کی حیثیت سے اعجاز نطق سے بہرہ ور راہنما صاحب تدبیر سیاستدان اور معجزانہ صلاحیتیں رکھنے والے دانشور کی حیثیت سے آپ نبی کریم ﷺ نے اپنی سیرت و کردار اور ارشادات و فرمودات کا جو انمول خزانہ چھوڑا ہے وہ تا ابد اقوام عالم کیلئے حکمت و موعظت اور راہنمایانہ بصیرت افروزی کا باعث بنا رہے گا۔
چشم اقوام نظارا یہ ابد تک دیکھے
رفعت شان رفعنا لك ذكرك دیکھے
آپ نبی کریم ﷺکی جلیل القدر شخصیت ہر دور اور ہر زمانے میں مشعل راہ رہی ہے۔ ہر عہد اور ہر صدی نے آپ نبی کریم ﷺسے فیض اٹھایا ہے۔ اگر دلوں سے تعصبات کی آلائش دور کر دی جائے تو ہر دل نبی کریم ﷺکی مسلمہ عظمت کا معترف اور ہر زبان آپ نبی کریم ﷺکی شاہ خوانی پر مجبور نظر آئے گی۔
صدر محترم! طائف کی بستی میں آپ کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا۔ کون سی بد سلو کی تھی جس کا وہاں مظاہرہ نہ کیا گیا۔ آپ میں ہم پر اس قدر پتھر برسائے گئے کہ آپ نبی کریم ﷺکے نعلین مبارک جسم اطہر سے بہنے والے خون سے لبریز ہو گئے۔
بستی سے باہر نکل کر نڈھال ہو کر اپنے غلام کی معیت میں ایک درخت کی چھاؤں تلے بیٹھ گئے۔ آپ ﷺکے غلام نے اس بستی کے ظالم اور بے رحم انسانوں کیلئے بددعا کی درخواست کی تو آپ ﷺنے فرمایا کہ میں اس بستی کی بربادی کیلئے بددعا کیوں مانگوں مجھے یقین ہے کہ اس بستی سے میرے دین کے حامی اور پاسبان انھیں گے۔
دعا فرمائی تو فقط یہی کہ
الہی فضل کر کہسار طائف کے مکینوں پر
خدایا پھول برسا پتھروں والی زمینوں پر
حاضرین محترم! آپ نے "الفقر فخری ” کہہ کر دنیا بھر کے مظلوموں بے نواؤں محنت کشوں اور مزدوروں کو سینے سے لگا لیا۔ آپ ﷺہی کی زندہ تعلیمات اور روشن کردار کی بدولت نہ صرف محنت کی عظمت دوبالا ہوئی بلکہ مزدوروں اور محنت کشوں کو روحانی سکون کا احساس ہوا۔
غریبوں لاچاروں اور دکھیاروں کو قرار آگیا کہ معین بے کساں زینت ہر دو جہاں سرور کشور کشایان عالم جناب رسالت مآ ب ﷺ نہ صرف ان سے پیار کرتے ہیں بلکہ قیامت کے روز ان کے ساتھ اٹھائے جانے کی دعا بھی فرماتے ہیں۔
میری غربت بن گئی اس وقت سے میرا وقار
کہہ کے جب الْفَقْرُ فَخْرِی وہ ہمارے ہو گئے
جناب والا! آپ سلام سے قبل عرب معاشرے میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں عورت اس کرہ ارض کی سب سے مظلوم ہستی تھی ۔ عورت کو پاؤں کی جوتی سے بھی حقیر سمجھا جاتا تھا۔
جنس بازار کی طرح اس کے دام لگائے جاتے تھے۔ روما و یونان میں جو اپنے ادوار کے عظیم تہذیبی مراکز تھے عورت کو صرف جنس بازار تصور کیا جاتا تھا۔ ہندوستان میں خاوند کے مرنے پر اس کی بیوی کو زبردستی آگ میں جلا کرستی کی رسم کو مذہبی ضابطہ بنا لیا گیا تھا۔
عرب معاشرہ میں بعض جگہ باپ کے مرنے پر اس کا ورثہ تقسیم کرتے ہوئے بیٹے اس کی بیویاں بھی بانٹ لیا کرتے تھے۔ بد نصیب ماں بیٹی جنتی تو باپ مجسم قہر و غضب بن کر بیٹی کو زندہ زمین میں دفن کر دیتا کیونکہ اس کیلئے یہ تصور ہی نا قابل برداشت تھا کہ مستقبل میں کوئی شخص اس کا داماد بن کر اس کی غیرت کیلئے چیلنج بن جائے۔
چونکہ حضور سرور دو عالم ﷺ پوری کائنات کیلئے رحمت و شفقت کا پیغام سر بلند تھے اس لئے آپ ﷺنے عورت کو مرد کے برابر حقوق عطا کرتے ہوئے مردوں کو تلقین کی کہ:
جو تم کھاؤ وہ انہیں کھلاؤ جو خود پہنو وہ انہیں پہناؤ اور ان پر ظلم نہ کرو۔
محترم سامعین! تاریخ نے بڑے بڑے جرنیلوں اور کشور کشاؤں کو دیکھا ہے جو عام زندگی میں انسانی اقدار کے کتنے بڑے مبلغ تھے، لیکن جب حالت جنگ کا اعلان ہوا تو انہوں نے ہر قیمت پر کامیابی حاصل کرنے کیلئے تمام اخلاقی قوانین اور تہذیبی ضوابط اپنے ہی قدموں تلے پامال کر دیئے۔
محسن کا ئنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کی انسانیت نوازی دیکھنی ہو تو تاریخ کے دھارے کو چودہ صدیاں قبل موڑ دیجئے اور اس وقت کا تصور کیجئے جب آپ ﷺمکہ میں فاتحانہ انداز سے داخل ہو رہے تھے۔ اس وقت آپ ﷺ کے دشمنوں کی ہر تحریک مزاحمت دم توڑ چکی تھی ۔
آپ ﷺ اپنے خدائے جلیل کی عظمت و برتری کے مظہر بن کر تاریخ کے عظیم ترین فاتح کی حیثیت سے اپنے آبائی شہر مکہ میں قدم رنجہ فرما رہے تھے ۔ آپ ﷺکے حکم سے بیت اللہ کے صدہا اصنام توحید کی ہیبت سے زمین پر گر کر ٹکڑوں کی صورت بکھر چکے تھے۔ یہ وہی شہر تھا، جہاں سے آپ ﷺ کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ بزم ہستی دم بخود تھی، وقت کی رفتار تھم چلی تھی۔
آپ ﷺ کے تمام اعداء آپ ﷺ کے خون کے پیاسے آپ ﷺ کے جسم اطہر پر غلاظت پھینکنے والے آپ ﷺ کو پتھر مارنے والے آپ ﷺ کی راہوں میں کانٹے بچھانے والے جنت کے گلزاروں کی بشارت دینے والے پر عرصہ حیات تنگ کرنے والے پیکر انوار خداوندی کو اپنی ناپاک سازشوں سے نقصان پہنچانے کے عزائم باندھنے والے جس کے قدموں پر محراب کعبہ جھکے اس پر بہتان طرازی کرنے والے ظلم و تعدی کے خوگر انسانی لہو کی بھینٹ لینے والے تہذیب و تمدن سے نا آشنا اقدار انسانی سے بے بہرہ جذبات محبت و شفقت سے محروم وحشت و بربریت کے رسیا۔
یہ سب کے سب جناب رحمتہ للعالمین ﷺکے حضور لرزہ براندام کھڑے تھے اور اپنے بدترین ماضی کی خباثتوں کو یاد کر کے اپنے آپ کو سخت سے سخت سزا کے مستحق بنا چکے تھے۔
ان سب کے دل آنے والے لمحوں کی ہولناکی سے لرزاں تھے۔ ان کی نگاہیں شرم و ندامت کے مارے زمین میں گڑی جارہی تھیں لیکن اپنے تمام لرزیدہ احساسات کے ساتھ ساتھ وہ اپنے دلوں میں آپ ﷺ کی رحمت للعالمینی سے خوشگوار توقعات بھی وابستہ کئے ہوئے تھے۔ اچانک آپ ﷺ کے لب ہائے جاں نواز سے زندگی بخش صدائے عام ابھرتی ہے۔
لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ ٱلْيَوْمَ
جاؤ آج تم سے کوئی باز پرس نہیں۔
جناب والا! آپ ﷺکے مقدس لیوں سے زندگی کی نوید کیا ملی عالم عرب میں گلشن انسانیت یکا یک ہی رنگ لے آیا۔ کائنات نے یہ منظر پہلے کب دیکھا ہوگا ۔ آپ ﷺ کا یہ آوازہ بخشش قافلہ انسانیت کو منزل مقصود تک لے جانے کا باعث بن گیا۔ آپ ﷺ کے خلق عظیم کے تصور سے یہ کہنا غلط تو نہیں کہ:
کچھ ان کے خلق نے کرلی ، کچھ ان کے پیار نے کرلی
مسخر اس طرح دنیا شہ ابرار نے کرلی
صدر عالی مقام ! یہ رسول خدا جناب سرور کائنات ﷺ کی عظمت بے پایاں اور انسانیت نوازی کا ہی اعتراف ہے کہ آج دشت و جبل میں، بحر و بر میں زمینوں آسمانوں میں عرب کے ریگ زاروں میں ایشیا کی عبادت گاہوں میں یورپ کے علمی و تہذیبی سرمائے میں افریقہ کے کالے انسانوں کے چمکتے دلوں میں،
محسوسات کے مہکہاز گلستانوں میں، عشق و عقیدت کے پر انوار ایوانوں میں، فکر و تدبر کی روشن وادیوں میں شعراء کی مدحت طرازیوں میں ادیبوں کی ادب نوازیوں میں اور خطیبوں کی تکلم باریوں میں حضور پر نور محمد رسول اللہ ﷺ کا نام نامی اسم گرامی انسانیت کے سب سے بڑے محسن کی حیثیت سے ابھرتا اور جگمگاتا ہے۔ روح فطرت کا یہ جاں نواز پیغام اقبال کے لفظوں میں یوں محبت رسول ﷺ کا احساس بخش رہا ہے۔
قوت عشق سے ہر سمت کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے
ظلمت و کفر و جہالت پہ زوال آتا ہے
نور قرآن لئے بدر کمال آتا ہے
زندگی مجھ یہ لٹاتی ہے مسرت کے گلاب
جب بھی سرکار کی رحمت کا خیال آتا ہے
سیدی” کہہ کے بلاتے ہیں صحابہ اس کو
زیر دامان محمد جو بلال آتا ہے
جس کو سرکار دو عالم کا ہوا لطف نصیب
کون کہتا ہے کہ پھر اس کو زوال آتا ہے