نام کتاب: میانچنوں سے ملائشیا تک
مصنف: محمد بوٹا انجم
تبصرہ نگار: محمد تنویر ماجد
اردو ادب میں سوانح عمری یا آپ بیتی لکھنے کی روایت بہت پرانی ہے ۔ چونکہ آپ بیتی یا سوانح عمری اردو ادب کی ایک ایسی صنف ہے جس میں لکھنے والا خود اپنے بارے میں لکھتا ہے اسی لئے آپ بیتی کے بارےمیں یہ گمان کیا جاتا ہےکہ یہ انتہائی حد تک سچے واقعات پر مبنی ہو گی اور اس میں مبالغہ آرائی کا عنصر شامل نہیں ہو گا۔ اور اگر اس میں مبالغہ آرائی شامل ہو یا پھر اس کے لکھنے میں کوئی کسر رہ جائے تو اسے ایک اچھی آپ بیتی نہیں کہا جا سکتا۔
مولانا جعفر تھانسری کی تواریخ عجیب (کالا پانی ) کو ممکنہ طور پر اردو ادب کی پہلی آپ بیتی تسلیم کیا جاتا ہے جو کہ 1885 میں لکھی گئی لیکن اسے ایک جزوی آپ بیتی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ان کی پوری زندگی کا احاطہ نہیں کرتی صرف 1857 کی جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد ان کے پھانسی کی سزا کے مستحق پانے اور پھر ان کی رہائی کے درمیانی واقعات پر مبنی ہے۔
بہرحال جدید دور میں اردو میں لکھی جانے والی آپ بیتیاں عام طور پر سیاستدان، بیوروکریٹس یا پھر افواج پاکستان کے اعلیٰ حلقوں کے افسران کے قلم سے ہی معرض وجود میں آ رہی ہیں۔
مجھے آپ بیتیاں پڑھنے کا کچھ حد تک چسکا ہے لیکن سچ بات یہ ہے کہ ہر آپ بیتی پڑھنے کے بعد میں ہمیشہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہوں کہ اس میں حد سے زیادہ دروغ گوئی سے کام لیا جاتا ہے، واقعات کو اس طریقہ سے توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے جس میں مصنف کا کردار ہمیشہ مثبت دکھائی دیتا ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ مصنف یہ آپ بیتی لکھتا ہی اس لئے ہے کہ اس کے خلاف پائے جانے والے عوامی تاثر کو ذائل کیا جا سکے تو بے جا نہ ہو گا۔
چند ایک دینی و ادبی حلقے کے مصنفین کی جانب سے لکھی گئی آپ بیتیوں کو چھوڑ کر مجھے ہمیشہ بری طرح محسوس ہوا کہ مصنفین حد درجہ کے دروغ گو ہیں اورصرف انہیں حالات و واقعات کو زیرِ قلم لاتے ہیں جن میں یا تو ان کی طاقت کا اظہار ہوتا ہے اور یا پھر ان پر لگے الزامات کا جھوٹا جواب دے کر وہ اپنے آپ کو صادق و امین ثابت کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسا بہت کم دیکھا گیا ہے کہ مصنفین اپنے حالاتِ زندگی تحریر کرتے ہوئے واقعات کو من و عن لکھ دیں اور اپنی غربت، اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا اظہار کھل کر کریں۔
خاص طور پر بیوروکریسی کی طرف سے لکھی جانے والی اکثر آپ بیتیاں پڑھتے ہوئے یہ معلوم پڑتا ہے کہ موصوف تو پیدا ہی سونے کا چمچہ لے کر ہوئے تھے اور ان کی پرورش جن حالات میں ہوئی کسی عام آدمی کے حصے میں و ہ سعادت آ ہی نہیں سکتی اور یہی وجہ ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ہمارے حکمران طبقے کے بازو ٹھہرے ہیں۔
ایسے میں میرے جیسا ایک عام قاری ہمیشہ یہ سمجھتا ہے کہ اس سطح پر پہنچنا ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں چاہے وہ جتنی بھی محنت کر لے اسے ہمیشہ عوام ہی رہنا ہے خواص کے حلقے کے کیواڑ اس کے لئے ہمیشہ بند ہی رہیں گے۔
یہی تاثر تھا کہ کچھ عرصہ ہوا میں نے آپ بیتیاں پڑھنا تقریبا چھوڑ دیا تھا البتہ مفت میں ہاتھ لگنے والی آپ بیتیاں پڑھنے کا شوق ابھی بھی موجود ہے یہی وجہ ہے کہ پچھلے تین چار سال سے میں صرف دو آپ بیتیاں ہی پڑھ پایا ہوں اور اتفاق سے ان دونوں کے نہ صرف نام ایک دوسرے سے کافی ملتے جلتے ہیں بلکہ ان دونوں کے طرزِ تحریر میں ایک جیسی سادگی پائی جاتی ہے۔
پہلی آپ بیتی جو پچھلے ایک سال میں میں نے پڑھی اس کا نام تھا "گاؤں سے پارلیمنٹ تک” جو ہمارے علاقے کے ایک بزرگ سیاستدان چوہدری قربان علی چوہان صاحب کی تصنیف کردہ تھی اور ان کے ایک عزیز کے توسط سے مجھ تک پہنچی اور اسی طرح پچھلے مہینے مجھے مصنف کی طرف سے بذریعہ ایک فیس بکی دوست محترم عمران اسحاق کی سفارش پر براہ راست موصول ہوئی جس کا نام "میانچنوں سے ملائشیا تک” ہے جو ایک بیوروکریٹ محترم محمد بوٹا انجم صاحب کی لکھی ہوئی ہے ۔
میانچنوں سے ملائشیا تک پڑھنے کے دوران مجھے صاحبِ کتاب کی علمی قابلیت، واقع نگاری اور صاف گوئی نہایت بھلی معلوم ہوئی لیکن پوری کتاب پڑھتے ہوئے مجھے بڑی شدت سے یہ انتظار رہا کہ کب صاحب اپنے آپ کو ہم سے اعلیٰ و ارفع مخلوق ثابت کرنے کی کوشش کریں گے اور کب مجھے یہ احساس ہو گا کہ یہ آپ بیتی بھی دوسروں سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔
لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں کتاب کے آخری ورق پر پہنچا اور مجھے مایوسی ہوئی کہ مصنف کے بارے میں میری پہلے سے قائم رائے درست نہیں رہی اور مصنف کے ممکنہ حد تک حالات و واقعات صاف گوئی سے پیش کیئے اور اس میں کچھ دروغ گوئی سے کام لینے کی ضرورت نہ سمجھی۔
محمد بوٹا انجم صاحب نے ایک انتہائی غریب گھرانے میں جنم لیا اور یہ بات انہوں نے قطعاً چھپانے کی کوشش نہیں کی، بھوک افلاس میں گزرا ان کا بچپن اور اوائل جوانی کا سارا قصہ انہوں نے من و عن بیان کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی۔
حصولِ رزق حلال کے لئے کیئے جانے والے چھوٹے چھوٹے اور حقیر سمجھے جانے والے کاموں کا ذکر کرتے ہوئے انہیں ذرا بھی ججھک محسوس نہ ہوئی۔ زندگی میں پہلی بار اکٹھے اتنے نوٹ حاصل ہوئے کہ انہیں ان نوٹوں کی سیج سجانے اور ان پر رات گزارنے کی سوجھی جو انہوں نے گزاری بھی لیکن اس قسم کی احقمانہ سمجھی جانے والی بات انہوں نے بغیر کسی لگی لپٹی کے قارئین کے گوش گزار کر دی۔
بچپن میں ہی والد صاحب کا سایہ سر سے اٹھ گیا تو ایک طرف جہاں پاپی پیٹ کی آگ کے ایندھن کے انتظام کی پریشانی آن پہنچی وہیں ان کے اپنوں کی بے اعتناعی انہیں توڑنے میں ناکام رہی لیکن جب زندگی نے انہیں اختیار کی مسند پر بٹھانے کا بندوبست کر دیا تب انہیں کبھی ان اپنوں کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کا خیال گزرا جو ان کے بڑے پن کا ثبوت ہے۔
اپنی لاہور آوارگی و دربدری کو الفاظ کا خوشنما پیرہن پہنا کر چھپانے کی ضرورت محسوس کی اورنہ بطور کنسٹریکشن ورکر نہایت چھوٹے چھوٹے کاموں کا بیان کرنا ہتک عزت ٹھہرا کر انہیں چھپانے کی ضرورت محسوس کی۔
غربت کے دونوں میں غیروں کی طرف سے کیئے گئے احسانات کا کھل کر نہ صرف ذکر کیا بلکہ آئندہ تمام عرصہ حیات ان کے ان احسانات کے بوجھ تلے زندگی گزارنے اور ان سے حسنِ سلوک کی کاوشوں کا ذکر بھی نہایت اچھے الفاظ میں کیا۔
یہ کوپر روڈ سے گزرتے وقت پیدل سفر کے سہل ہونے کی وجہ بیان کرنے میں عار محسوس کی اور نہ ہی بدمعاش گروپ کے ساتھ مل کر کی جانے والی اپنی بدمعاشیاں چھپانے کی کوشش کی۔ البتہ ایک بات جو میں ان کی سول سروس کے شروع دن سے آخری دن تک کی روداد میں سے اخذ کرنے سے قاصر رہا کہ آخر اپنے کام نکلوانے کے لئے "دفتری تقاضوں ” میں ان کا حصہ کتنا تھا لیکن چونکہ ان کی باقی تمام باتیں اتنے کھلے الفاظ میں بیان کی گئی ہیں کہ ان کا اس معاملہ پر خاموش رہنا قابلِ قبول رہا۔
محمد بوٹا انجم صاحب کا لکھنے کا اصلوب اتنا دلکش ہے اور ترتیب اسقدر اعلیٰ ہے کہ ان کی کتاب میانچنوں سے ملائشیا تک پڑھنے میں آب بیتی کے ساتھ ساتھ ناول کا مزہ بھی آتا ہے۔ واقعات کی تفصیلات اس قدر جامع ہے کہ ان کی یاداشت پر رشک آتا ہے، حالات و واقعات لکھنے سے پہلے اس جگہ کا اس باریک بینی سے بیان کرتے ہیں کہ قاری اس جگہ کو اپنے لئے اجنبی محسوس نہیں کرتا اور واقعات پڑھتے ہوئے گمان پڑتا ہے کہ قاری انجم صاحب کے ساتھ اس جگہ پر موجود ہے۔
ملک ریاض جیسے بزنس ٹائیکون سے ٹاکرہ اور اداروں میں ایک دوسرے کے خلاف پائی جانے والی فطری جیلسی اور اپنی صاف گوئی کا خمیازہ سروس سے جلد ریٹائرمنٹ کی صورت میں بگھتنا اور پھر اپنا نیا بزنس شروع کرنے کے لئے پاپڑ بیلنے جیسے حالات سے گزرنا ایسے واقعات ہیں جو ایک عام قاری کے لئے ہرگز بھی دلچسپی کے خالی نہیں ہیں۔
الغرض محمد بوٹا انجم صاحب کی کتاب جہاں ان کی زندگی کے بھرپور واقعات کا بیان ہے وہیں ایک عام آدمی خاص طور پر طالب عملوں کے لئے مشعلِ راہ بھی ہے کہ وہ ہمیں اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ زندگی میں آگے بڑھنے میں کی جانے والی عملی کاوشیں اور بروقت لیئے جانے والے فیصلے ہمیں آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتے البتہ ہمیں اپنی کوششیں ہمیشہ جاری و ساری رکھنی چاہئیں کبھی بھی دل چھوٹا نہیں کرنا چاہئے۔
اپنی طرف سے اگر میانچنوں سے ملائشیا تک کو میں دورِ جدید میں لکھی جانے والی آپ بیتیوں میں ریٹنگ دینا چاہوں تو یہ کسی صورت 10 میں سے 9.5 سے کم نہ ہو گی۔ مصنف کی لکھی جانے والی یہ پہلی کتاب میانچنوں سے ملائشیا تک تھی جو میرے زیرِ مطالعہ آئی اسی میں مصنف نے اپنی دیگر کتابوں کا ذکر بھی کیا ہے امید ہے کہ جلد ہی انہیں پڑھنے کا موقع ملے گا پھر ان کے بارے میں بھی اردونامہ کتاب گھر پر اپنی رائے دوں گا۔